آنکھ کی پُتلی کا ہر اک عکس اب گہرا ہوا
ورنہ پانی اِس ندی کا تھا کبھی گدلا ہوا
چاند چہرہ اُسنے ہاتھوں پر ٹکایا جس گھڑی
اُس کے ہاتھوں کا کٹورا چاند کا ہالہ ہوا
اپنے جوبن پر نظر آیا جو ماہِ شب تمام
سطحِ دریا پر وہ چہرہ آئینہ چہرہ ہوا
ایک ہی صورت تواتر سے نظر آتی رہی
آج پھر وہ خواب دیکھا بارہا دیکھا ہوا
ہوگیا کافور سر کا درد تیرے لمس سے
میری بیٹی سوگیا میں رات کا جاگا ہوا
پھول بے موسم کِھلا ہے یا سرِ شاخِ چمن
اک دھنک آنچل کا ٹکڑا ہے ابھی الجھا ہوا
جابجا ہیں خوشنما ناموں کے رنگیں دستخط
کیا ترے دل کا ورق خسروؔ کبھی سادہ ہوا
(فیروز ناطق خسروؔ)