اب پاکی ء دامن پہ ہیں الزام کے دھبے
کردار کے دھبے تو کبھی نام کے دھبے
زاہد کے عمامے پہ تھے رندوں کی قبا پر
ساقی نے جو چھلکائے اُسی جام کے دھبے
اس دل پہ ہیں بس خون کے دھبے ہی نمایاں
جاں پر ہیں مری رنج کے، آلام کے دھبے
لگتا ہے کہ آندھی سے پہل گھر تھا یہ صحرا
دیکھے ہیں یہاں ہم نے در و بام کے دھبے
آنکھوں میں یوں اترا ہے ترا دردِ جدائی
افلاک پہ جیسے ہوں ڈھلی شام کے دھبے
کل خواہشِ منزل کا لہو ایسے کیا کچھ
اب تک کفِ خنجر پہ ہیں انعام کے دھبے
اُس دست حنائی نے قلم جب بھی اُٹھایا
کاغذ پہ ابھرنے لگے دشنام کے دھبے
اک عمرِ گزاری ہے اِسی جہد میں سیما
لگ جائیں نہ ہم پر کسی الزام کے دھبے
عشرت معین سیما