غزل
ازل کیا ابتدا حسن و محبت کے ترانے کی
ابد کیا صرف اک بدلی ہوئی سرخی فسانے کی
تڑپتی بجلیاں پھر خانہ بربادی کے درپئے ہیں
قفس کی خیر یا رب ہو چکی خیر آشیانے کی
ہماری زندگی بھی ایک فرصت تھی مگر کتنی
فقط رنگ تمنا کے چڑھانے یا اڑانے کی
قفس اک تار ہے تن ایک مٹی کا گھروندا ہے
حقیقت قید کی یہ ہے یہ ہستی قید خانے کی
وہ آنکھیں دیکھ کر میں کیا زمانہ کہنے لگتا ہے
کہ ان میں ہے جسے کہتے ہیں سب گردش زمانے کی
ہماری زندگی بد مستیوں کا دور تھی بیخودؔ
ادھر ہو کر نہیں نکلی تمنا ہوش آنے کی
بیخود موہانی