اس کے دیدار کو گئی آنکھیں
تب ہی بیناٸی کھو گٸی آنکھیں
تجھ کو دنیا میں ڈھونڈنے کے لیے
اک مسافر سی ہو گئی آنکھیں
بس تری دید کی تمنّا تھی
دید کے بعد سو گئی آنکھیں
دل دھڑکنا سکھا گیا دل کو
خواب آنکھوں میں بو گئی آنکھیں
پھر پلٹ کر کبھی نہیں آئیں
وہ ترے ساتھ جو گئی آنکھیں
لوگ بچھڑے ہوئے جو یاد آئے
میرے رخسار دھو گئی آنکھیں
موسم گل میں بھی کبھی زریاب
میرا دامن بھگو گئی آنکھیں
ہاجرہ نور زریاب