انتباہ
یہ نہ ہو جائے کہ وہ شعلہ اِدھر پھر لپکے
جس نے پہلے بھی مرےجسم کوجھلسایا تھا
یہ نہ ہو جائے کہ وہ تیغ یہاں پھر چمکے
جس نے پہلے بھی مجھے خون میں نہلایا تھا
یہ نہ ہو جاے کہ دشمن مرا للکارے مجھے
اور مجھے جوہرِ شمشیر پرَکھنا پڑ جائے
بڑھ کے ساغر مرا سبزے پہ اُلَٹ دے کوئی
اور مجھے ہاتھ سے بربط مرا رکھنا پڑ جائے
یہ نہ ہو جائے کہ کہرام مچے گلیوں میں
اور خبر آئے کہ مقتول ہوے یار مرے
تیغِ جلّاد کو سونپے گیے ایک اک کرکے
دست و بازو مرے، بھائی مرے، دلدار مرے
یہ نہ ہو جائے کہ پھر یاروں کا اسباب بٹے
دُزد پیشوں میں، دراندازوں میں ، عیّاروں میں
یہ نہ ہو جاے کہ پھر ہند کی ناموس بِکے
کابل و غزنی و بغداد کے بازاروں میں
یہ نہ ہو جا ئے کہ پھر دیکھنے والے دیکھیں
یہ نہ ھو جاے کہ پھرہم سے چمن کھو جائے
ناز برداریء شمشادو صنوبر نہ رھے
وقعتِ لالہ و توقیرِسمن کھو جائے
سعید صاحب