andaz e Sukhan is lyee joban main nahi tha
غزل
اندازِ سخن اس لیے جوبن میں نہیں تھا
وہ پھول جو میرا تھا وہ گلشن میں نہیں تھا
پھونکا ہے مرے گھر پہ کسی شخص نے پڑھ کر
دیوار کا سایہ مرے آنگن میں نہیں تھا
جو کرتا رہا آنکھوں کو خیرہ مری ہر پل
منظر وہ حسیں ہجر کے ساون میں نہیں تھا
اس نے ہی مرے مان کو تلوار سے کاٹا
وہ شخص جو شامل صفِ دشمن میں نہیں تھا
تھا دوستی میں کوئی تقاضا نہیں تجھ سے
وہ سامنے آیا جو مرے من میں نہیں تھا
آنکھیں اسے اس پار کہیں دیکھ رہیں تھیں
چہرہ کوئی دیوار کے روزن میں نہیں تھا
تاریکی مٹانے کو جو شب بھر جلے انجم
ایسا تو ستارہ مرے دامن میں نہیں تھا
شہناز انجم
Shahnaz anjum