loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

17/06/2025 20:02

اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل

اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل

یہ زندگی بھی خواب ہے تو خواب سے نکل

۔

سورج سے اپنے بچھڑی ہوئی اک کرن ہے تو

تیرا نصیب جسم کے برفاب سے نکل

۔

تو مٹی پانی آگ ہوا میں ہے قید کیوں

ہونے کا دے جواز تب و تاب سے نکل

۔

پھولوں میں چاند تاروں میں سورج میں اس کو دیکھ

ان پتھروں کے منبر و محراب سے نکل

۔

مرجھا نہ جائے دیکھ کہیں روح کا گلاب

فانی جہاں کی وادئ شاداب سے نکل

۔

بن کے جزیرہ ابھرے گا کردار خود ترا

خوش رنگ خواہشوں کے تو سیلاب سے نکل

۔

کہتی ہیں مجھ سے سوچ سمندر کی وسعتیں

عارفؔ تو اپنی ذات کے تالاب سے نکل

عارف شفیق

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم