اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل
یہ زندگی بھی خواب ہے تو خواب سے نکل
۔
سورج سے اپنے بچھڑی ہوئی اک کرن ہے تو
تیرا نصیب جسم کے برفاب سے نکل
۔
تو مٹی پانی آگ ہوا میں ہے قید کیوں
ہونے کا دے جواز تب و تاب سے نکل
۔
پھولوں میں چاند تاروں میں سورج میں اس کو دیکھ
ان پتھروں کے منبر و محراب سے نکل
۔
مرجھا نہ جائے دیکھ کہیں روح کا گلاب
فانی جہاں کی وادئ شاداب سے نکل
۔
بن کے جزیرہ ابھرے گا کردار خود ترا
خوش رنگ خواہشوں کے تو سیلاب سے نکل
۔
کہتی ہیں مجھ سے سوچ سمندر کی وسعتیں
عارفؔ تو اپنی ذات کے تالاب سے نکل
عارف شفیق