غزل
اپنا جہاں میں رہنا ہے یادگار رہنا
مشکل تھا اپنے گھر میں بیگانہ وار رہنا
اے موت رحم کر اب یہ کوئی زندگی ہے
نظروں سے اپنی گر کر دنیا پہ بار رہنا
ہاتھوں پہ سر کو رکھے ہر رند کہہ رہا ہے
بے کیف رہنے ہی تک تھا بے خمار رہنا
کس طرح میں نے مانا اے اختیار والے
میت کے مثل اپنا بے اختیار رہنا
رنگینیوں نے کس کی سکھلا دیا ہے گل کو
جب تک چمن میں رہنا بن کر بہار رہنا
ہستی کے قافلے کو اس راہزن نے لوٹا
کہتا تھا راہ بھر جو ہاں ہوشیار رہنا
بیخودؔ کی زندگی کی یہ بھی کوئی طرح تھی
بے اختیار آنا بے اختیار رہنا
بیخود موہانی