اپنا نام و نشان کھونے لگے
یعنی ہم اور تم سمونے لگے
کوزہ گر تیرے ہاتھ کا جادو
جو بھی دیکھے بدن بھگونے لگے
ہائے اُس ناؤ کی سیہ بختی
ناخدا خود جسے ڈبونے لگے
کیا مزہ ہو جو ایک دم ہر کام
بمطابق خیال ہونے لگے
تشنگی وہ کہ اپنی شدّت سے
حلق میں سوئیاں چبھونے لگے
چاہتا ہوں گلے لگا کے کوئی
یوں رُلائے کہ خود بھی رونے لگے
عشق میں بھی منافقت جاوید
ہجر ہے اور آپ سونے لگے
آصف جاوید