بدن پہ پیرہن خاک کے سوا کیا ہے
مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے
۔
یہ شہر سجدہ گزاراں دیار کم نظراں
یتیم خانۂ ادراک کے سوا کیا ہے
۔
تمام گنبد و مینار و منبر و محراب
فقیہ شہر کی املاک کے سوا کیا ہے
۔
کھلے سروں کا مقدر بہ فیض جہل خرد
فریب سایۂ افلاک کے سوا کیا ہے
۔
تمام عمر کا حاصل بہ فضل رب کریم
متاع دیدۂ نمناک کے سوا کیا ہے
۔
یہ میرا دعویٰ خود بینی و جہاں بینی
مری جہالت سفاک کے سوا کیا ہے
۔
جہان فکر و عمل میں یہ میرا زعم وجود
فقط نمائش پوشاک کے سوا کیا ہے
حمایت علی شاعر