بس مدینے میں ہی جینے کا سہارا ملے گا
خلد میں جانے کا واں سے ہی اشارہ ملے گا
اس گھڑی ہوگی مرے نام سے منسوب حیات
جس گھڑی غم کے سمندر کا کنارا ملے گا
مجھ کو امید ہے واثق کے مسافت میں مجھے
راہ دکھلانے کو قسمت کا ستارا ملے گا
سائے میں بیٹھ کے خضریٰ کے پڑھوں گا نعتیں
پھر مقدر کا لکھا سارے کا سارا ملے گا
قبر میں آئیں گے احوال کو جب دونوں نکیر
صرف دیوان ہی پڑھنے کو ہمارا ملے گا
جن کو کھلتے ہیں نبی جی کے زمانے میں غلام
بعد مرنے کے انہیں صرف خسارا ملے گا
دل دھڑکتے ہوئے اقبال یہی کہتا ہے
خواب میں تجھ سے تری جان کا پیارا ملے گا
ڈاکٹر سید محمد اقبال شاہ