loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 16:06

بعد از ہوائے تُند نشیمن نہیں رہا

بعد از ہوائے تُند نشیمن نہیں رہا
اَشجار پر طیور کا خرمن نہیں رہا

اس موسمِ بہار تو آیا ہے کس گھڑی
اب دل سے کوئ رشتۂ گلشن نہیں رہا

چہرے پہ میرے جھرّیاں پڑنے لگیں تَو کیا
اس حسن ناز پر بھی تَو جوبن نہیں رہا

ٹکرائے اِس طرح کے ابھی چور ہو گئے
یوں گھر میں کوئی کانچ کا برتن نہیں رہا

ان عورتوں سے پوچھیے تقدیر کا ستم
جن کے جنازہ ہاتھوں میں کنگن نہیں رہا

جگنو خفا ہیں, چاند ستاروں پہ دُھند ہے
کوئ چراغ راہ کا روشن نہیں رہا

میں نے جگر کا خوں کیا آپس میں منتقل
جلنے کو جب چراغ میں ایندھن نہیں رہا

لوگو! یہ سوچ کر مری خوشیوں کو چھیننا
اب میرے ساتھ وہ مِرا بچپن نہیں رہا

اب چھوڑ دو پہننا پرانے لباس شمس!
یہ ہے نیا زمانہ وہ فیشن نہیں رہا

ظہیر الدین شمس

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم