loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 18:01

بگاڑ

BIGAAR NAZM

بگاڑ

جبلت کیوں بگڑتی ہے کسی انسان کی آخر
کبھی سوچا کبھی سمجھا کبھی جانا بتاؤ تم
اگر معلوم ہو جاتا گہر نایاب یہ ہم کو
یقیں جانو کبھی ماتم نہ ہوتا عام سڑکوں پر
کوئی درگور نہ ہوتا کوئی پامال نہ ہوتا
مگر ہونا نہ ہونا طے کیا ہے سارا قدرت نے
ہزاروں دلدلوں کے درمیاں رستے بنائے ہیں
کہاں کیسے گزرنا ہے کہاں بچ کر نکلنا ہے
بتانے کے لیے بھیجے پیمبر ہر زمانے میں
اتارے آسمانوں سے صحیفے بھی زمینوں پر
یہاں تک کے خدا نے رحمت العالمین بھیجا
قرآں کے تیس پاروں سے حسیں قانون سمجھایا
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ شاعر کی زباں سے ہر کسی انساں کو سنوایا
مگر افسوس اس کو داستاں سمجھا فقط ہم نے
نظامِ زندگی اپنا یہاں رائج کیا ہم نے
قرآنی آیتوں سے اپنے مطلب کی ہر اک آیت
خود ہی پڑه کر خود ہی سمجھا کیا پھر فیصلہ خود ہی
بنا کر بستیاں قانون تک اپنے بنا ڈالے
پھر اس قانون میں رستے بنائے اپنے بچنے کے
لگائے اپنی مرضی کے یہاں ہر ایک نے پہرے
فقط اپنے ہی بارے میں ہر اک انسان نے سوچا
نہ سوچا کل کے بارے میں نہ اس روزِ قیامت کا
تو پھر ایسا ہوا جس کے نہ ہونے میں بھلائی تھی
خدا نے ڈور ڈھیلی چھوڑ دی انسان پر اپنی
سو اب ہوگا وہی جو کچھ یہاں انسان چاہے گا
یہاں لاشے گریں گے عزتیں پامال بھی ہونگیں
طلاقیں عام ہونگیں اور نمائش کے لیے دنیا
حدوں سے پار کتنے ہی گلِ حیرت کھلائے گی
دکانوں میں دفاتر میں تجارت کے لیے دنیا
برہنہ عورتوں کو سامنے لاکر بٹھائے گی
نجانے معجزے کتنے یہاں پر رونما ہونگے
وہ جو قانون اندھا تھا اسے مل جائیں گی آنکھیں
وہ ہر ملزم کو دیکھے گا اسے تولے گا پرکھے گا
پھر اس کے بعد ہی وہ فیصلہ اپنا سنائے گا
پھر اس کے فیصلوں کی روشنی وہ گل کھلائے گی
کہ جس کی بو سے انسانی جبلت ہنہنائے گی
پھر اس کی ہنہناہٹ ساز و سر آواز کا جادو
ہر اک بوڑھے جواں بچے پہ کھل کر آزمائے گی
یہ جادو اس طرح سے کارگر ہوگا زمانے پر
کے اپنے آپ کو حق پر ہر اک انسان سمجھے گا
نشے میں مال و دولت کے وہ سب کچھ بھول جائے گا
خوشی کے گیت گائے گا حیا کی پھاڑ کر چادر
وہ ایسے میں بہو بیٹی بہن اپنی نچائے گا
یہی وہ وقت ہوگا جس گھڑی تبخیر کے ذریعے
یہ رنگِ خون بچوں کا زرا تبدیل کر دے گا
تباہ ہو جائے گی استاد کی حرمت یہاں پل میں
فحاشی عام ہو کر وہ شعورِ آگہی دے گی
جسے پاکر یہ بچے باپ کو آنکھیں دکھائیں گے
فدا ہو جائیں گے ماں باپ ان کی ان اداوں ہر
کریں گے ناز ان پر حوصلہ ان کا بڑھائیں گے
پھر ایسے میں چلی آئے گی جدت ناچتے گاتے
اسی کے نام پر عریاں بدن سڑکوں پہ آئیں گے
تو بچے وقت سے پہلے بلوغت چوم جائیں گے
شرافت ٹوٹ کر ٹکڑوں میں دو بٹ جائے گی یارو
نظامِ زندگی تحلیل ہو کے ان ہواوں میں
سرور و کیف مستی کے زہر کو گھول جائے گا
پهر اک دیوار حائل ہوگی انسانوں کی بستی میں
جو بانٹے گی یہاں انسان کو حصوں میں فرقوں میں
غریبی اک طرف ہوگی امیری اک طرف ہوگی
بنیں گے ان میں بھی طبقے بنیں گے ان میں بھی فرقے
یہاں انساں بصیرت اور سیرت بھول جائے گا
نشہ دولت کا جدت کا تقاضہ مرتبہ اسکا
اسے مجبور کرکے اس طرح مفلوج کردے گا
کے اپنی بیٹیاں بیوی بہن ہنس کر نچائے گا
وہاں دیوار کے اس پار غربت کے اندھیروں سے
کوئی بیٹی کوئی بیٹا اچانک سر اٹھائے گا
سجائے خواب آنکھوں میں نکل آئے گا جنگل میں
یہاں انساں نما کچھ بھیڑیے لوٹیں گے نوچیں گے
سنا کر خواب کی ان کے حسیں تعبیر پهر ان کو
اندھیری دلدلوں کے پیٹ میں ان کو دھکیلیں گے
وہاں بگڑے ہوئے بچے امیروں کے اندھیروں میں
کلی کا جسم نوچیں گے کئی پھولوں کو روندھیں گے
یہاں قانون پھر ہوجائے گا اندھا نہ دیکھے گا
صحافت کا قبیلہ اور سماجی بستیاں ساری
یہاں کچھ بھی نہ بولیں گی یہاں کچھ بھی نہ سوچیں گے
اسی کا فائدہ لے کر اسی کی آڑ میں یارو
درندے بن کے یہ انسان ہی انساں کو نوچیں گے
سڑک پر کھیت میں کچرے میں اور ویران رستوں پر
کہیں بچے کہیں پر پھول تتلی اور کہیں کلیاں
لٹا کر عصمتیں مردہ ملیں تو کیا عجوبہ ہے
یہ جو لکھا ہے اک حصہ ہے یہ تحریر کا میری
ابھی لکھنے کو میرے پاس اک پورا سمندر ہے
ابھی حرص و ہوس لالچ ابھی خوابوں کی دنیا کا
ابھی عشق و محبت دوستی کا باب باقی ہے
ابھی ظلم و ستم چالاکیاں محرومیوں کی بات
حسد کی آگ اور اونچی اڑانوں کی کہانی سے
لگی ہے کس طرح سے آگ یہ لکھنا ضروری ہے
ابھی شیطان کی شیطانیاں بیرونی دشمن کے
ہزاروں وار ایسے ہیں جنہیں کہنا ضروری ہے
سیاسی کھیل بھی کم تو نہیں اسکا بھی حصہ ہے
یہ دینی معاملے کا رنگ بھی محسوس ہوتا ہے
نہ ملنا مجرموں کو جرم پر ان کے سزائیں بھی
جبلت کے بگڑنے کا بہانہ ہو بھی سکتا ہے
کھلی ہیں شہر میں تعلیم کی یہ منڈیاں جب سے
کتابوں نے امیری اور غریبی کے نشاں پائے
جبلت کے بگڑنے میں کہیں یہ بھی تو مجرم ہیں
مگر اتنا کہوں گا چاک پر تکمیلِ آدم سے
بگڑتی آ رہی ہے آدمی کی یہ جبلت ہاں
تبهی آدم کو دنیا میں سزا کے طور پر بهیجا
کیا ہابیل نے قابیل کو بھی قتل دنیا میں
نجانے کتنی قوموں کی ہلاکت کا سبب تنہا
جبلت کا بگڑنا ہی جبلت کا بگڑنا ہے
خمیرِخاک میں رب نے ملایا ہے بھلا کیا کیا
کوئی بھی شے نہیں چھوڑی ملایا زرے زرے کو
بنا کر دے دیا قانون ہاتھوں میں حسیں رب نے
شعور و آگہی دے کر بتائے راستے دونوں
تو لکھنے کو یہی باقی بچا باقی بچا ہے یہ
عدل کمزور ہو جائے ملیں اس کو بھی دو آنکھیں
بغاوت جنم لیتی ہے خمیرِخاک سے پھر تو
کوئی زرہ کوئی نقطہ اچانک سر اٹھاتا ہے
جبلت کو وہی زرہ نئ تحریک دیتا ہے
جبلت رنگ بدلتی ہے نیا چہرہ بناتی ہے
کہیں ڈاکو لٹیرے چور تو زانی کہیں قاتل
کہیں رہبر کہیں شاعر کہیں مفتی بناتی ہے
بنا کر قیس و لیلا درد کو سہنا سکھاتی ہے
یہی ظالم بناتی ہے یہی محروم کرتی ہے
مگر اتنا کہوں گا میں یہی کہنا ضروری ہے
جبلت کا بگڑ جانا کسی انسان کا یارو
کوئی سازش نہیں یہ معاملہ ہی اختیاری ہے

نسیم شیخ

Naseem Shaikh

نسیم شیخ

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم