بھلا اور کوئی بسے کیا نظر میں
تُو ہی تُو ہے ہر سُو سجا بحر و بر میں
کوئی ہے سفر میں کوئی ہے بھنور میں
بشر پھنس گیا ہے یہاں سیم و زر میں
فقط تجھ کو پانے کی ہی آرزو میں
مری زندگی ہے مسلسل سفر میں
تجھے ڈھونڈنے ڈھونڈتے آ گیا ہوں
تُو مل جائے شاید پرانے کھنڈر میں
بتا بھی نہ پاؤں میں مشکل کو اپنی
کہاں پختگی ہے مرے اس ہنر میں
عجب رنگ تیرے عجب روپ تیرے
تجھے دیکھتا ہوں میں شام و سحر میں
ہیں دل میں فروزاں سخی اس کے جلوے
کہ ہے نور جس کا یہ شمس و قمر میں
سخی سرمست