غزل
بیمارِ محبت ہوں ترساؤ نہ صورت کو
بھولے سے کبھی آؤ تم بھی تو عیادت کو
مختار ہو تم صاحب جو چاہو کرو لیکن
اتنا بھی ستانا کیا مجبور محبت کو
اس قادر مطلق کے بندے ہی جو ہم ٹھہرے
ہنستے ہوئے سہنا ہے ہر جبر مشیت کو
جس حال میں وہ رکھیں اس حال میں ہم خوش ہیں
مدت ہوئی دفنائے احساس مصیبت کو
جو غم میں مسرت کی گھلنے کو ہوئے پیدا
بد بخت وہ کیا جانیں خود غم کی مسرت کو
اک بعد خیالی سے ہٹ کر غم فرقت کیا
مفلوج نہ ہونے دو احساس معیت کو
وہ پشت پناہی پر آ جاتے ہیں قوت سے
چھیڑے نہ کوئی ان کے پروردۂ نسبت کو
سرکار کے بندے کا بس دل ہی بھر آنا ہے
آنکھوں کی نمی بس ہے تحریک عنایت کو
افسانۂ ہستی میں مضمر ہے حقیقت بھی
بھولو نہ کہیں کاملؔ تم اپنی حقیقت کو
کامل شطاری