غزل
بیٹھ کر ساحل پہ موجوں کو بپھرتا دیکھنا
بلبلوں کو آب پر ——- بنتا بگڑتا دیکھنا
زندگی اور موت کا ، جاری ازل سے کیھل ہے
آرزو میں ساحلوں کی لہروں کو مرتا دیکھنا
اپنی اپنی کرنی کا پایا ہے پھل سب نے مگر
حاسدوں نے کب کسی کو ہنستا بستا دیکھنا
وائے ناکامی، اس کے دل میں یہ حسرت رہی
وقت کی دہلیز پر ، مجھ کو بکھرتا دیکھنا
آدم و حوا کی سب اولاد —— یہ انساں مگر
معاشرتی تفریق کو —- ان میں پنپتا دیکھنا
مایوس ہی لوٹی نظر —- ہر بار تیری صوفیہ
اور پھر ردائے ہجر میں ،خود کو لپٹتا دیکھنا
صوفیہ حامد