تجھ کو پا لینے کے اسباب کہاں سے لاتا
نیند روٹھی تھی ترے خواب کہاں سے لاتا
مل گیا ایک دیا اس کو غنیمت سمجھو
رات کالی تھی سو مہتاب کہاں سے لاتا
چاہنے والا تجھے چاہ تو سکتا تھا مگر
میرے جیسا دلِ بیتاب کہاں سے لاتا
ہو گئى خشک مری ذات کی ہر ایک ندی
آنکھ کی جھیل میں کچھ آب کہاں سےلاتا
ہاتھ خالی تھے ترے واسطے میں شہزادی!
ریشم و اطلس و کم خواب کہاں سے لاتا
بانٹ کر پیاس پرندوں کو کیا ہے رخصت
پانیوں سے بھرے تالاب کہاں سے لاتا
ساتھ چلتےجومرےشہرِپریشاں میں امین
اپنے کھوئے ہوئے احباب کہاں سے لاتا
امین اڈیرائی