تعصبات میں لپٹے ہوئے شرارے لوگ
کم آشنائے مروت ، زباں کے کھارے لوگ
نہ جانے کون سا دریا ہے یہ تفاوت کا
اکیلا میں ہوں ادھر ، اس طرف ہیں سارے لوگ
ہرا سکی نہ جنہیں مفلسی زمانوں کی
مرے ہیں ناگہاں سیلاب میں ہمارے لوگ
خدا اتر کے کبھی خود زمیں پہ کب آیا
بنائے اس نے یہاں لوگوں کے سہارے لوگ
انہی کی یاد سے روشن ہے زندگی میری
چمک رہے ہیں خیالوں میں جو ستارے لوگ
تمام عمر رہا میں وفا کے زنداں میں
مجھے تھی جن سے محبت ، انہیں تھے پیارے لوگ
سدا شکست ہوئی زندگی کو وحشت سے
میں مر کے جیت گیا اور جی کے ہارے لوگ
جہاں جہاں پہ ضرورت تھی روشنی کی اَمرؔ
وہیں وہیں پہ اتارے گئے ستارے لوگ
امر روحانی