تمام عمر رلایا رلا کے چھوڑ دیا
بہانہ ایس بنایا بنا ے چھوڑ دیا
یہ فاصلوں کا نگر ہے اسی سبب مجھ کو
اشارہ کر کے بلا یا بلا کے چھوڑدیا
۔جگر کا خون بھی ہوجائے اس سے ان کو کیا
لبوں کو ہنسنا سکھا یا سکھا کے چھو ڑ دیا
کوئی کرن میرے انگن میں اج اترے گی
یہ سبز باغ دکھایا دکھا کے چھوڑ دیا
یہ جان کر بھی کے میں جیت تو نہیں سکتا
یہ کیسا کھیل کھلایا کھلا کے چھوڑدیا
خزاں کی شاخ پہ کاغذ کے پھول رکھوا کر
پھر ایک پنچھی اڑایا اڑا کے چھوڑ دیا
مرض کا اپنے مداوا تو مجھکو کرنا تھا
کوں ایس زخم لگا یا لگا کے چھوڑ دیا
غزل کا مطلع ترنم سے پڑھ رہا تھا میں
کسی نے مقطع اٹھایا اٹھا کے چھوڑ دیا
میں وسوسے میں فنا ہوں کے کیا کہوں اس کو
کے اس نے ہاتھ ملایا ملا کے چھوڑ دیا
سید ظہیر فنا شموگا