غزل
تمہیں بس یہ بتانا چاہتا ہوں
میں تم سے کیا چھپانا چاہتا ہوں
کبھی مجھ سے بھی کوئی جھوٹ بولو
میں ہاں میں ہاں ملانا چاہتا ہوں
یہ جو کھڑکی ہے نقشے میں تمہارے
یہاں میں در بنانا چاہتا ہوں
اداکاری بہت دکھ دے رہی ہے
میں سچ مچ مسکرانا چاہتا ہوں
پروں میں تیر ہے پنجوں میں تنکے
میں یہ چڑیا اڑانا چاہتا ہوں
لئے بیٹھا ہوں گھنگھرو پھول موتی
ترا ہنسنا بنانا چاہتا ہوں
امیری عشق کی تم کو مبارک
میں بس کھانا کمانا چاہتا ہوں
میں سارے شہر کی بیساکھیوں کو
ترے در پر نچانا چاہتا ہوں
فہمی بدایونی