loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 18:41

تنگ آگئے ہیں کیا کریں اِس زندگی سے ہم​

تنگ آگئے ہیں کیا کریں اِس زندگی سے ہم​
گھبرا کے پُوچھتے ہیں اکیلے میں جی سے ہم​

​مجبُوریوں کو اپنی، کہیں کیا کسی سے ہم​
لائے گئے ہیں ، آئے نہیں ہیں خوشی سے ہم​

​کمبخت دل کی مان گئے ، بیٹھنا پڑا​
یوں تو ہزار بار اُٹھے اُس گلی سے ہم​

​یارب! بُرا بھی ہو دلِ خانہ خراب کا​
شرما رہے ہیں اِس کی بدولت کسی سے ہم​

​دن ہی پہاڑ ہے! شَبِ غم کیا ہو، کیا نہ ہو​
گھبرا رہے ہیں آج سرِ شام ہی سے ہم​

​دیکھا نہ تم نے آنکھ اُٹھا کربھی ایک بار​
گُزرے ہزار بار تمہاری گلی سے ہم​

​مطلب یہی نہیں؟ دلِ خانہ خراب کا​
کہنے میں اِس کے آئیں، گُزرجائیں جی سے ہم​

​چھیڑا عدُو نے، رُوٹھ گئے ساری بزْم سے​
بولے، کہ اب نہ بات کریں گے کسی سے ہم​

​تم سُن کے کیا کرو گے کہانی غریب کی​
جوسب کی سُن رہا ہے، کہیں گے اُسی سے ہم​

​محفل میں اُس نے غیر کو، پہلو میں دی جگہ​
گُزری جو دل پہ کیا کہیں بسمل کسی سے ہم​

​بسمل عظیم آبادی​

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم