غزل
تو پورے شوق سے کر پوری بات اپنی
ترے قدموں میں رکھ دی ہے حیات اپنی
اسیر زلف بن کر کھو دی آزادی
اسیری میں نہ دن اپنا ،نہ رات اپنی
کہیں بہہ ہی نہ جائے اشک بن بن کر
ان آنکھوں میں ہے پنہاں کائنات اپنی
نچھاور کر دیا سب کچھ میں نے اپنا
وفا کر لے تو بھی تو کوئی بات اپنی
تُو اور کیا چاہتا ہے ہم سے اے فاتح
تری محفل میں ہار آئے حیات اپنی
مواقع تو بہت ملتے ہیں باتوں کے
نہیں ہوتی مکمل پھر بھی بات اپنی
زمانے کے ستم سارے تُو لکھ سہگلؔ
جھجک کیا ، ہے قلم اپنا ، دوات اپنی
احسان سہگل