They Jahan deeda magar kha gayee dhooka kaisay
غزل
تھے جہاں دیدہ مگر کھا گئے دھوکا کیسے
کرلیا آپ نے دنیاپہ بھروسا کیسے
تیری آواز میں اندازِ صداقت ہی نہ تھا
سلسلہ دارو رسن سے ترا ملتا کیسے
وقت تو آپ کی مٹھی میں تھا قیدی کی طرح
دے دیا وقت نے پھر آپ کو دھوکا کیسے
ان کے در پر نہ جلے ہم سے خوشامد کے چراغ
کام بگڑا ہوا بنتا بھی تو بنتا کیسے
آندھیاں ظلم کی تم تیز کرو پھر دیکھو
ایک چنگاری بنا کرتی ہے شعلہ کیسے
ہم سے آتے ہی نہیں اصل میں آدابِ حیات
زندگی پورا کریں تیرا تقاضہ کیسے
صبیحہ سنبل
Sabiha Sunbal