غزل
جانے کیا کہہ دیا روانی میں
دے گیا اشک وہ نشانی میں
اک تبسم کا آسرا تھا فقط
بہہ گیا آج وہ بھی پانی میں
سوچ منفی جو رکھتے ہیں ان کی
عمر کٹتی ہے بدگمانی میں
بے کلی میں قرار ہے مجھ کو
شاد رہتی ہوں خوش گمانی میں
ہم نے پایا نہیں کہیں وہ مزہ
نفس پر ہے جو حکمرانی میں
اے مرے ہم نفس مطمعنہ چل
کچھ نہیں رکھا دارِ فانی میں
صوفیہ داستاں میں رہنا ابھی
ہیں بہت موڑ اس کہانی میں
صوفیہ حامد خان