غزل
جب بھی اس حسن نازکی سے ملوں
اک عجب رنگ روشنی سے ملوں
تو جو کہہ دے تو چھوڑ دوں یہ جہاں
تو جو کہہ دے تو ہر کسی سے ملوں
خود کو اس واسطے کیا ہے چراغ
تاکہ میں اپنی روشنی سے ملوں
ہر طرف تو ہی تو دکھائی دے
اس قدر شوق دلبری سے ملوں
کھویا جاؤں میں تیرے شہر میں اور
ڈھونڈنے پر تری گلی سے ملوں
تجھ سے پہلے تری خوشی کے سبب
آنکھ میں آ چکی نمی سے ملوں
اس قدر بھی میں اب نشے میں نہیں
تیرے ہوتے بھی زندگی سے ملوں
ندیم ناجد