غزل
جس راجہ کے بل بوتے پر راج محل تک جاتی ہو
راج محل میں بیٹھ کے اس پر پتھر کیوں برساتی ہو
پتھر کی ان مورتیوں میں تم بھی ایک اضافہ ہو
لاکھوں سیوک دیکھ رہے ہیں ہم سے کیوں شرماتی ہو
دور گلی کی مورنیوں میں کتنی سندر لگتی ہو
دل کے مندر میں پھر آ کر پتھر کیوں بن جاتی ہو
پیار نگر میں ہنسنا رونا سب کچھ ہوتا رہتا ہے
آپس کی باتوں میں آخر غیروں کو کیوں لاتی ہو
تم کہتی ہو ناری ہٹ میں دل کی بات مقدم ہے
دل کی بات مقدم ٹھہری پھر کیوں دھوکا کھاتی ہو
مورتیوں کے دیس میں سارے پتھر کے گن گاتے ہیں
تم کیوں آشاؤں کے سر پر ناگن سی لہراتی ہو
لاکھ بلاؤں چپ رہتی ہو یہ بھی کوئی بات ہوئی
من مندر میں آگ لگا کر دیوی کیوں بن جاتی ہو
دیوی جان کے دیوی دوارے جب ہم پھول چڑھاتے ہیں
روپ نگر میں ناری چھل کے کیا کیا روپ دکھاتی ہو
سندرتا سے پیار کی بندیا راکھی کے ارمانوں تک
ننگے بھوکے انسانوں پر کیا کیا تیر چلاتی ہو
زیدیؔ پر الزام لگا جب تم نے بھی تردید نہ کی
اپنے اوپر بات جب آئی کیسی قسمیں کھاتی ہو
ابوالفطرت میر زیدی