جو نین بجھ گئے وہ تری دید سے گئے
اور دل بجھے تو چاہ کی تجدید سے گئے
جن کی دراز دستی سے ٹوٹی تھیں چوڑیاں
الزام پر خموش ہیں، تردید سے گئے
جایا نہ جاے گا کبھی آئندہ اس طرف
اک بار جس طرف بڑی امید سے گئے
در اصل اک سہیلی کی مہندی کی رسم تھی
ہم سے کہا گیا بڑی تاکید سے ، گئے
اصناف بھی تو دیتی نہیں ہیں سبھی کا ساتھ
جو شعر سے گئے وہی تنقید سے گئے
جتنا تھا مان، دکھ بھی ہوا اس قدر مجھے
جو عہد سے پھرے، مری تائید سے گئے
آخر میں جو ہوا وہی ہونا تھا شازیہ
افسوس ہم وضاحتِ تمہید سے گئے
شازیہ اکبر