غزل
حد جنوں کے پار بھی جاتی رہی ہوں میں
دامن سے اپنے آگ بجھاتی رہی ہوں میں
سب دیکھتے رہے ہیں تماشا کھڑے کھڑے
ہنس کر بدن کی خاک اڑاتی رہی ہوں میں
زنجیروں میں مری کوئی جھنکار تو نہیں
اشکوں سے اپنے شور مچاتی رہی ہوں میں
رکھا ہے سب نے قید قفس میں مجھے مگر
زنداں میں آفتاب کو لاتی رہی ہوں میں
کھینچی تھی آسماں پہ نگہ سے لکیر اک
آہوں سے ضرب روح مٹاتی رہی ہوں میں
وحشت میں رو برو جو فرشتے ہوئے شغفؔ
حرف دعا بھی ان کو پڑھاتی رہی ہوں میں
پروین شغف