غزل
خط میں لکھا ہے ہمیں اب لوٹ آنا چاہیے
کیا کہیں کہ لوٹنے کو اک زمانہ چاہیے
آئنہ سازی میاں اجداد کی میراث ہے
تم بتاؤگے مجھے کیسے بنانا چاہیے
دہر کی حیرت سرا میں اب تغیر ہے بپا
اک پسندیدہ ستارہ جگمگانا چاہیے
ہمدم کہنہ سہی غم ہائے قلب صد فگار
خواب پرور ساعتوں میں بھول جانا چاہیے
خواب کی تعبیر چاہے دل شکن ہی کیوں نہ ہو
آنکھ میں جلتے دیوں کو جھلملانا چاہیے
بشریٰ مسعود