خیال کر کے جو میں نے دیکھا اسی کی صورت چمک رہی ہے
اسی کا نقشہ ہے چار جانب اسی کی رنگت دمک رہی ہے
تمہارے فیض قدم سے جانا ہوا ہے سرسبز باغ عالم
تمام اس گلشن جہاں میں تمہاری خوشبو مہک رہی ہے
نہ درد جائے گا چارہ سازو عبث تمہاری ہے فکر و کوشش
کسی حسیں کی یہ نوک مژگاں ہمارے دل میں کھٹک رہی ہے
یہ باغ عالم میں رنگ دیکھا کوئی ہے غمگیں کوئی ہے خنداں
کہیں ہے شوروفغاں کہیں پہ بلبل چہک رہی ہے
عجب طرح کی یہ کشمکش ہے کہ ہم کو ہے انتظار جاناں
کمر کو باندھو اٹھاؤ بستر اجل سرہانے یہ بک رہی ہے
بسی گلوں میں اسی کی بو ہے پری وشوں میں اسی کی خو ہے
بتوں کے پردے میں دیکھ اوگھٹؔ اسی کی صورت جھلک رہی ہے
اوگھٹ شاہ وارثی