loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

06/08/2025 01:59

دریا مِرے وُجود کا پیاسا بہت لگا

دریا مِرے وُجود کا پیاسا بہت لگا
مُجھ کو مِرا وُجود ذرا سا بہت لگا

پیاسی زمیں کو ایک دِلاسا بہت لگا
تشنہ لبوں کو ابر کا ٹُکڑا بہت لگا

مارے خُوشی کے جُھوم رہے تھے کسان سب
آنکھوں میں پِھر بھی ایک سا خدشہ بہت لگا

سب تیٖر طنز کے تھے چلائے کمال سے
الفاظ سے نہ کُچھ ہُوا لہجہ بہت لگا

اپنے ہی دام میں نے گرائے ہیں جا بجا
کیوں میں ہی اپنے آپ کو مہنگا بہت لگا

دو چار گام ساتھ چلا تو سہی مِرے
ہمراہ مُجھ کو میرا ہی سایہ بہت لگا

ماں نے اُٹھایا گود میں چُھونے کو چاند جب
اُس وقت آسمان بھی چھوٹا بہت لگا

چلتا رہا ہُوں دِل سے میں دُنیا نِکال کر
ورنہ مِرے لیے تو تماشا بہت لگا

جاویدؔ زندگی سے تھا واقف ضرور وہ
تہہ داریاں چُھپائے تھا سادہ بہت لگا

جاوید احمد خان جاویدؔ

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم