loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 16:56

در ٹوٹنے لگے کبھی دیوار گر پڑے

در ٹوٹنے لگے کبھی دیوار گر پڑے
ہر روز میرے سر پہ یہ تلوار گر پڑے

اتنا بھی انحصار مرے سائے پر نہ کر
کیا جانے کب یہ موم کی دیوار گر پڑے

سانسیں بچھا کے سوؤں کہ دست نسیم سے
شاید کسی کے جسم کی مہکار گر پڑے

ٹھہرے تو سائبان ہوا نے اڑا دئے
چلنے لگے تو راہ کے اشجار گر پڑے

ہر زاویے پہ سوچ میں ابھرے وہی بدن
ہر دائرے پہ ہاتھ سے پرکار گر پڑے

اظہرؔ یہ لمحہ لمحہ سلگنا عذاب ہے
مجھ پر جو برق گرنی ہے اک بار گر پڑے

اظہر ادیب

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم