غزل
دوش صبا پہ کیا کوئی پیغام آ گیا
کیا ماہتاب آج سر شام آ گیا
ہر شاخ گل لچکتی ہے گلشن کی آج کل
ہر پھول کی زباں پہ ترا نام آ گیا
کھلتے رہے ہیں پھول ہر اک شاخ گل کے آج
شاید چمن میں آج وہ گلفام آ گیا
کیسی مہک ہے آج ہر اک سو بسی ہوئی
کیا باغباں وہ آج سر عام آ گیا
کیسے چھپاتے عکس جو آنکھوں میں تھا ترا
سر کو جھکائے رکھنا مرے کام آ گیا
جس سے بسا ہوا ہے مرا گلشن حیات
دو گام جی چلا تھا کہ ناکام آ گیا
اٹکھیلیاں ہے کرتی گلستاں میں کیوں صبا
اس کی اسی ادا پہ ہی الزام آ گیا
بیگم سلطانہ ذاکر ادا