دیکھو تو کیسے بخت ہیں ہاتے زمین کے
بجھتے ہی جارہے ہیں ستارے زمین کے
تھک ہار کر جو شام کو ڈھلتا ہے آفتاب
دھلتے ہیں آبِ زر سے کنارے زمین کے
پیڑوں کو اس طرح سے نہ کاٹو ذرا رکو
لوگو یہ آخری ہیں سہارے زمین کے
پنچھی شجر کی شاخ سے جو کر رہے ہیں کوچ
شاید سمجھ چکے ہیں اشارے زمین کے
پھولوں کا پیرہن کہیں رنگوں کی آب جو
کتنے ہیں دلفریب نظارے زمین کے
سوچا ہے آج دل سے تو عرفان یہ کھلا
ملتے ہیں آنسوؤں سے کنارے زمین کے
عرفان صادق