غزل
ذرا سی رات ڈھل جائے تو شاید نیند آ جائے
ذرا سا دل بہل جائے تو شاید نیند آ جائے
ابھی تو کرب ہے بے چینیاں ہیں بے قراری ہے
طبیعت کچھ سنبھل جائے تو شاید نیند آ جائے
ہوا کے نرم جھونکوں نے جگایا تیری یادوں کو
ہوا کا رخ بدل جائے تو شاید نیند آ جائے
یہ طوفاں آنسوؤں کا جو امڈ آیا ہے پلکوں تک
کسی صورت یہ ٹل جائے تو شاید نیند آ جائے
یہ ہنستا مسکراتا قافلہ جو چاند تاروں کا
فرحؔ آگے نکل جائے تو شاید نیند آ جائے
فرح اقبال