غزل
روپیہ پیسہ ڈالر والر، کیا کھویا کیا پایا
کچھ تو بتاؤ میرے دلبر، کیا کھویا کیا پایا
تم کو بھی احساس ہوا ہو اس کا تو بتلاؤ
تم نے ہمارے ساتھ میں رہ کر کیا کھویا کیا پایا
بیت گئی ہے ساری ہستی دکھ ہی سہتے سہتے
کون بتائے کس کو یہاں پر کیا کھویا کیا پایا
گنتی جب کی ہی نہیں تو کچھ کہنا بے معنی
کون بتائے گا یہ برابر کیا کھویا کیا پایا
یہ فقیر یہ گیت سناتا بستی سے کل گزرا
یہی صدا تھی اس کے بھی لب پر کیا کھویا کیا پایا
تم ہو اپنی جگہ پہ اچھے ہم اپنے آنگن میں
ہیرے سے کہتا ہے یہ پتھر کیا کھویا کیا پایا گیا
لوگوں سے تو دنیا میں ہم پوچھ پوچھ کر ہارے
تم ہی کچھ بتلاؤ منور کیا کھویا کیا پایا
منور جہاں زیدی