غزل
رہے دل کی دل میں زباں تک نہ پہنچے
مرا غم حدود بیاں تک نہ پہنچے
یہ ہستی نہ ہو بے خودی رفتہ رفتہ
کہیں خواب خواب گراں تک نہ پہنچے
ترا مرتبہ اے زمیں اللہ اللہ
تری گرد کو آسماں تک نہ پہنچے
دیا تو مری آرزو کا جلے اور
اجالا کسی کے مکاں تک نہ پہنچے
یہی اب ہے بہتر کہ چپ سادھ لیجے
کوئی بات پھر داستاں تک نہ پہنچے
نہ چھیڑیں وہ تار رگ جاں سعادتؔ
کہیں نغمۂ دل فغاں تک نہ پہنچے
سعادت نظیر