loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

19/04/2025 18:00

زخم ترے اطوار کے اکثر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں

زخم ترے اطوار کے اکثر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں
تیر، زباں ، تلوار کے نشتر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں

چہرے بدلے عادت بدلی روح نے پھونکی جان نئی
ورنہ سب مٹی کے پیکر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں

کون پڑا ہوگا رستوں پر کس کو پوجا جائے گا
یوں دیکھو تو سارے پتھر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں

جذبے میں گر کھوٹ ملا ہے کیسے پھر صحرائی ہو
عشق ہو تو دیوانے اکثر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں

نفرت نے ہے خون بچھایا دنیا کی جن گلیوں میں
ان ساری گلیوں کے منظر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں

کانٹوں کے ہوں مخمل کے یا فٹ پاتھوں کی گود میں ہوں
نیند اگر ہو سارے بستر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں

آئینے جب ڈھونڈ رہے ہوں جھوٹ نگر میں سچائی
سارے چہرے سب چہروں پر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں

دولت غربت شاہ گداگر سب دنیا کے میلے ہیں
تربت میں فقراء و سکندر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں

گھر ہو یا صحرا کا دامن مجھ کو ہے سب ایک نسیم
ویرانے تو اندر باہر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں

نسیم بیگم نسیم

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم