غزل
زمانے کی ستائی خودکشی ہے
محبت ابتدائی خودکشی ہے
جہاں سفاک آنکھیں گھات میں ہوں
وہاں چہرہ نمائی خودکشی ہے
میں رائے عشق پر اب اور کیا دوں
کہا تو ہے کہ بھائی خودکشی ہے
میں اس کو پھول دے کر خوش نہیں ہوں
کہ یہ بھی دلربائی خودکشی ہے
یہ استعمال کرنے پر کھلا ہے
کہ خوشبو کیمیاٸی خودکشی ہے
شکاری گھات میں بیٹھا ہو تو پھر
پرندے کی رہائی خودکشی ہے
کسی تتلی کا مر جانا عزیزو
حقیقت میں نسائی خودکشی ہے
اعجاز توکل