loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 15:53

زمیں اور آسماں کو کھینچتا ہے

زمیں اور آسماں کو کھینچتا ہے
وہی کون و مکاں کو کھینچتا ہے

جو کھینچے ہے مجھےمحورکی جانب
وہی مرکز جہاں کو کھینچتا ہے

سخن ور وہ سخن کارِ زیاں ہے
جنوں میں جو بیاں کو کھینچتا ہے

سمندر آسماں سے آج کہہ دے
سمندر درمیاں کو کھینچتا ہے

اگر اس ہجر میں ہے اتنی راحت
تو کیوں پھر دل فغاں کو کھینچتا ہے

بہت تیزی سے جو بھاگے زمیں پر
وہ اک دن جسم و جاں کو کھینچتا ہے

وہیں تک رہ جہاں تیری زمیں ہے
کہاں تو ہے کہاں کو کھینچتا ہے

وہ چہرہ خواب ہوتا جا رہا ہے
یہ دل کس خوش گماں کو کھینچتا ہے ؟

مسلسل بول جس کے بولتے ہو
وہی اک دن زباں کو کھینچتا ہے

ہیں ایسے زخم روشن چاک ِدل پر
نشاں ہرپل کماں کو کھینچتا ہے

تجھے کھنچوں کہاں مجھ میں ہے طاقت
خدا خود بد زباں کو کھینچتا ہے

ردا کیا آسماں والے سے کہنا
وہی تو آسماں کو کھینچتا ہے

ردا فاطمہ

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم