غزل
سچ کی خاطر بتا تو لڑا ہے کبھی
حق پہ رہ کر قدم بھر چلا ہے کبھی
کیوں کمی تیری محسوس ہوگی مجھے
ساتھ میرے کہاں تو رہا ہے کبھی
مجھ سے پہلے بھی تو ہوں گے ناقص یہاں
شور اتنا مگر کیا مچا ہے کبھی
ہو کے آزاد بھی میں تو ہوں قید میں
پر کٹا کر پرندہ اڑا ہے کبھی
تو کیا جانے بکھرنے میں کیا لطف ہے
راہ میں یار کی تو بچھا ہے کبھی
جھوٹ چلتا رہا سر کو اونچا کیا
سچ بھلا کیا کسی کو دکھا ہے کبھی
جس کو پڑھ کر زمانہ سنورنے لگے
شعر ایسا حناؔ کیا کہا ہے کبھی
حنا عباس