صحبتِ ثابت و سیار سے خوف آتا ہے
اے تماشے ترے اسرار سے خوف آتا ہے
راستے میں ترے اصرار پہ سایہ طلبی
بیٹھ بھی جاؤں تو دیوار سے خوف آتا ہے
ایک مدت سے ہوں مامور اسی حالت پر
آج کیا بات ہے بیگار سے خوف آتا ہے
یہ نہیں ہے کہ میں انکار نہیں کر سکتا
آپ کے سامنے انکار سے خوف آتا ہے
میرے احباب سلامت رہیں دایم لیکن
صاف کہتا ہوں کہ دو چار سے خوف آتا ہے
عتیق احمد جیلانی