صدارتی تمغئہ شجاعت کی حامل شخصیت و شاعر، سابق ایس ایس پی، پی ایس پی بلوچستان، زاہد آفاق
صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق پولیس افسر ایس ایس پی، پی پی ایم، پی ایس پی اور معروف شاعر و ادیب زاہد حسین المعروف زاہد آفاق نے سن اُنّیس سو اَسّی کے اوائل میں کوئٹہ کی ادبی تنظیم”بزمِ فکرِ نو” میں اپنے استادِ محترم رشید انجم لکھنؤی(مرحوم) کی سربراہی میں عہدہِ صدارت سنبھالا جبکہ پہلے صدر اسلم گداز بہ رضائے خود احتراماً عہدہِ صدارت سے مستعفی ہو گئے تھے۔ جبکہ جنرل سکریٹری کے عہدے پر صدف چنگیزی کو قائم رکھا گیا۔ محترم استاد رشید انجم لکھنؤی جن کا اُس وقت برّ ِصغیر پاک و ہند کے نامور شعرائے کرام میں شمار ہوتا تھا نے اپنے شاگردانِ عزیز کی ادبی تنظیم سازی کے ارتقائی پہلوؤں کی عملی تربیت بھی کی بعد ازاں استاد رشید انجم لکھنوی نے دسمبر سن انّیس سو تراسی میں "بزم فکر نَو” کو تحلیل کر دیا اور "دبستانِ بولان” کوئٹہ کی بنیاد رکھی، جس کا مرکزی صدر زاہد آفاق کو مقرر کیا گیا۔ اس طرح بلوچستان کی سب سے بڑی علمی اور ادبی انجمن "دبستان بولان کوئٹہ” کا پہلا صدر بننے کا تاریخی اعزاز بھی موصوف کو حاصل ہوا۔ جو سَن انّیس سو چھیاسی میں کرنل فضلِ اکبر کمال کے تنظیمی صدر بننے تک قائم رہا۔ اسی دوران کوئٹہ جیسا سنگلاخ علاقہ بڑے بڑے مشاعروں کی وجہ سے دنیاۓ ادب میں اپنی آب و تاب کیساتھ ابھر کر سامنے آیا۔ کیونکہ ادبی تنظیم دبستانِ بولان کوئٹہ کے مشاعروں میں ملک بھر سے شعراۓ کرام جنابِ رئیس امروہوی، احمد ندیم قاسمی ، جنابِ احمد فراز جنابِ منیر نیازی، قتیل شفائی، جنابِ محسن احسان، عنایت علی خان، جاذب قریشی، اعجاز رحمانی، ڈاکٹر شاداب احسانی، دلاور فگار، جنابِ اختر لکھنوی، پروین شاکر، قمر وارثی، انور شعور کے علاوہ بیرونِ ملک سے پروفیسر جگن ناتھ آزاد، مہیندر سنگھ بیدی اور شام اَگر وال، نے نہ صرف مشاعروں میں شرکت کی بلکہ رشید انجم لکھنؤی اور موصوف کے ساتھ ساتھ کرن فضلِ اکبر کمال، ناگی عبدالرزاق خاور اور صدف چنگیزی کو بھی میزبانی کا شرف بخشا۔ اس امر سے انکار ناممکن ہے کہ سماجی حقائق کے ساتھ انفرادی ذمہ داریاں، فرائض منصبی، باہمی محبتوں سے جڑے رہنا ہی کسی فرد اور اُس کے افکار کو دوسروں سے نمایاں کرتا ہے۔ گو کہ موصوف نے نمایاں ہونے کا دعویٰ تو ہرگز نہیں کیا مگر تمام تر تلخ و شیریں حقائق کے متوازی سخنوری کی جانب رجحان موصوف کی زندگی کا حصہ رہا جس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہو کہ شاعرانہ صلاحیتیں بچپن ہی سے قدرت نے ودیعت کر دی تھیں۔ اپنی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ زاہد آفاق کے اندر کا سپاہی اور سخنور دونوں ہی غمِ ہستی کے کرب کی کیفیات سے ہمیشہ برسرِ پیکار رہے۔ جب موصوف کے اندر کے خاموش کرب نے آنکھیں کھولیں تو معاشرتی عدم استحکام، ظلم اور نام نہاد اہلِ قلم کے خلاف ایک بغاوت سی اُبھر کر سامنے آ کھڑی ہوئی جس نے سماجی نا انصافیوں کے مقابل سرد اعلانِ جنگ کر دیا جو موصوف سے شروع ہوا اور شاید اُن ہی پر ختم ہوگا۔۔
زاہد آفاق دورانِ ملازمت بتدریج ایس ایس پی نوشکی، لورالائی۔ ایس ایس پی اسپیشل برانچ، کرائم برانچ بلوچستان، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر قلات، ہرنائی، زیارت، ژوپ جیسےاعلیٰ عہدوں پر فائز رہ کر ریٹائرڈ ہوئے۔جبکہ سن اُنّیس سو چُراسی میں سرکاری اعزاز "صدارتی تمغئہ شجاعت” حاصل کرنے کے علاوہ "اے ٹی ایس” جو اب "اے ٹی ایف” کہلاتا ہے کے 6th Basic Course میں Over All Best Student,
First in Un Armed Combat. And
Second in Assault Group یعنی
(Three Shields)
حاصل کیں اور سب انسپکٹر کے عہدے سے انعامیہ ترقی یاب ہوئے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اِس کورس میں کُل پاکستان کی صوبائی، آزاد کشمیر اور ریلوے پولیس کے چنیدہ افسران شامل تھے جس کی ٹریننگ(ISSB) کے ملٹری کمانڈوز کے زیر اہتمام سہالہ اسلام آباد میں کرائی گئی تھی اور موصوف بلوچستان پولیس کے پہلے افسر ہیں "جنھوں” نے سن اُنّیس سو اَسّی تا سن اُنّیس سو چُراسی کے ہونے والے پاکستان بھر کے تمام تربیتی مقابلوں میں پہلی مرتبہ تمام ایوارڈز جیت کر پورے ملک میں بلوچستان پولیس کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔
اِسی طرح بعدہ :
Police Training College (PTC)
سہالہ میں کل پاکستان کے ایڈوانس کورس جو سن اُنّیس سو چھیانوے/ ستانوے میں ہوا تھا میں بھی "میرٹ نمبر ون” کا اعزاز حاصل کرنے کا شرف حاصل کِیا۔۔۔
موصوف کی شجاعت دلیری کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے صدارتی تمغئہ شجاعت اور یو این مشنز کمبوڈیا اور فارمر یوگو سلاویہ سے یو این میڈلز اور تعریفی اسناد سے انہیں نوازا گیا۔ یو این مشن فارمر یوگوسلاویہ سے واپسی کے بعد "سن اُنّیس سو چھیانوے” میں گورنر بلوچستان لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ خان کے ہاتھوں ایک پروقار تقریب میں صدارتی تمغہ شجاعت جیسا اہم ایوارڈ و دیگر اہم اعزازات کا شرف حاصل ہوا۔
یہاں یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں چند پولیس اہلکاروں کی بے حسی، بدعنوانی کی بناء پر محکمہ پولیس کو ہمارا معاشرہ جذبات، احساسات اور انسانی دردمندی سے خالی الوجود سمجھتا ہے۔ ان سے ادب کی تخلیقی صلاحیتوں کی ایسی کوئی خاص توقع نہیں رکھی جاتی۔ اگر بند ذہنوں کے بجائے کھلی آنکھوں سے موازنہ کیا جائے تو حقیقت کہیں کہیں اس کے بالکل برعکس بھی نظر آئیگی۔کیونکہ یہ بھی اسی معاشرے کے افراد ہیں۔ ان کے بھی سینے میں دل دھڑکتا ہے۔ ان کے بھی جذبات و احساسات ہیں۔ ان کے بھی گھروندے دکھ کی مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔ ان کی بھی آنکھیں رنج و الم سے جھرنوں کی مانند بہتی ہیں۔ ان کے بھی احساسات کو پیروں تلے روندا جاتا ہے۔۔ان کی بھی خواہشات دم توڑ جاتی ہیں ۔۔۔جب کہ ۔۔ان کے بھی تخیلاتی محل امید کی کرنوں سے لبریز اور تخلیقات کی چاندنی سے منور ہیں۔ وقت گواہ ہے کہ فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں نے دنیائے ادب میں بھی اپنا منفرد مقام بنایا ہے ۔۔ جس طرح حادثات اور جرائم پر ان کی گہری نگاہ ہوتی ہے بالکل اسی طرح معاشرے کی ادبی اور اخلاقی ترجیہات کا بھی ان کے ذہنوں پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ جس کے اثرات ان کی گفتگو اور تخلیق میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ اور معاشرے کے پیچیدہ مسائل پر ان کی نظریں اسی طرح مرکوز ہوتی ہیں کہ جس طرح جرائم پیشہ افراد پر۔۔ اور۔۔ ان کی یہی فکر ادبی تخلیق کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
زاہد آفاق کے پہلے شعری مجموعہ "خواب جزیرہ”کی اشاعت کے بتّیس سال بعد دوسرے مجموعئہ کلام "مشغلہ” کے منظر عام پر آنے کی تاخیری اور بنیادی وجہ دورانِ ملازمت اپنے فرائض منصبی کی بخوبی ادائیگی تھا ۔ اس دوران موصوف وقتآ فوقتآ شوقِ سخن کو توانا رکھتے ہوے ادبی تقریبات کا حصہ رہے اور گاہے بہ کاہے اپنے کلام کو محفوظ کرتے رہے۔ جو کہ آج دنیاۓ ادب کے خزانے میں "مشغلہ” اور "خواب جزیرہ” کے ناموں سے موجود ہیں۔ جس میں زاہد آفاق کا جمالیاتی حسن قابلِ ستائش تو ہے مگر موصوف کے اشعار کو وادیِ بولان میں موجود دنیاوی شہرت کے حامل مصور محمود رشی نے شعری مجموعات "خواب جزیرہ” اور "مشغلہ” کے سرِ اوراق سمیت تقریباً پچاس صفحات کو اشعار کے مطابق تخیلاتی عکاسی دے کر نہ صرف جاذبِ نظر بنایا ہے بلکہ ادبی تخلیقات کی دنیا میں، اپنا ایک منفرد انداز بھی متعارف کرایا ہے۔ جبکہ زاہد آفاق کی غزلیات کو ملکہِ ترنم نور جہاں، گلبہار بانو، آصف مہدی، بابر نیازی ۔ثنا نور، عمران مہدی حسن، سید دانیال رضا زیدی، استاد اسد امانت علی خان، خلیل حیدر، ثمینہ اقبال، ترنم ناز، محمد علی اور غلام علی خان (کوئٹہ) اپنی اپنی سریلی اندازِ گائیکی سے شہرت بھی حاصل کر چکے ہیں۔
موصوف کا چہرہ کہیں مشاعرہ میں تو کہیں خادمِ ادب کے طور پر ادبی افق پر جھلملانے لگتا ہے ان کا تصوراتی عکس اور تخیلاتی فکر کہیں قطعہ، کہیں ثُلاثی، کہیں مسدس، کہیں رباعی اور بیشتر مقام پر شعری ڈھانچوں میں غزلیات کا روپ دھار کر دبستانِ کوئٹہ میں ادبی ذوق کی تکمیل اور ادب کے فروغ کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔۔ اگر یہ کہا جائے کہ سابق پولیس آفیسر زاہد آفاق اپنے اظہارِ جمالیات سے ادبی و اخلاقی جرم کا خاتمہ اپنے اشعار سے کر رہے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔۔۔ بلکہ۔۔ موصوف تشنہ دہنوں کو اپنے شعری جھرنوں سے سیراب کر کے ان کی تشنگی دور کرکے طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ جو کہ موصوف کی قابلیت کا اعتراف ہی نہیں بلکہ انہیں ہمیشہ ادبی افق پر قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا رہے گا۔اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مصرعہ؛؛ شائد زاہد آفاق کے لیے کہا گیا ہو۔۔
بہت مشکل سے ہوتا ہے جہاں میں دیدہ ور پیدا
سید فیاض الحسن