غزل
صرف ہم دونوں کو لاحق ہے یہ دوری رات میں
چاند ہے پورا وگرنہ اس ادھوری رات میں
ایسا لگتا تھا کہ تارے جھیل میں موجود ہیں
جب حلیمہ پانی بھرتی تھی ظہوری رات میں
صبح دم اپنے گھروں کو چل دیے بوڑھے دیے
رہ گئیں باتیں جو کرنی تھیں ضروری رات میں
سارا دن کمرے میں سورج جھانکتا ہے مستقل
کر تے ہیں ہم جگنوؤں کی جی حضوری رات میں
موت سے سیراب جاگی چشم کا اک وہم تھا
سبز رنگی ریت پھیلی تھی جو بھوری رات میں
بندھ گئی کاہے یہ ہچکی ، کاہے ترسے مورے نین
ہائے رام ایسا انرت اور ایسی نوری رات میں
کرن منتہیٰ