غزل
عجب طرح کی مسافتیں ہیں مقدروں میں
نہ قربتوں میں سکون پایا نہ فاصلوں میں
سنہری جھیلوں میں عکس پڑتے تھے پربتوں کے
ابھی فروزاں ہیں سارے منظر بصارتوں میں
اسے نہ فرصت ملے گی دفتر سے دوستوں سے
ہم اپنے آنسو چھپائے بیٹھے سہیلیوں میں
رگوں میں پیہم رواں ہے عنبر فشاں محبت
کسی کے بالوں کا لمس زندہ ہے انگلیوں میں
دو ساعتوں میں سمٹ گئی داستاں ہماری
پھسل گئی ہے جو ریت باقی تھی مٹھیوں میں
نہ پھول جیسے حسیں فرشتوں کے پر تراشو
نہ زہر گھولو ابھی سے کچی سماعتوں میں
بشریٰ مسعود