عداوت کو محبت کا ہنر پانے کی خواہش ہے
تخیل ہے! حقیقت میں بدل جانے کی خواہش ہے
میں ہوں مدہوش لیکن ہوش میں آنے کی خواہش ہے
دم آخر کسی کو جیسے جی جانے کی خواہش ہے
جو کچھ بیتی دل ناداں پہ دہرانے کی خواہش ہے
اب اپنے دل کو آئینوں سے بہلانے کی خواہش ہے
کوئ تو ہو جو اسکی روشنی میں جذب ہو جاۓ
ہر اک جلتی ہوئ شمع کو پروانے کی خواہش ہے
یہ خواہش ہے جو دم نکلے ترے پہلو میں بیٹھے ہوں
مگر یہ جانتے ہیں یہ بھی دیوانے کی خواہش ہے
مزہ ہے ہوں مقابل ہم بھی اپنی پوری قوت سے
اگر طوفان کو بھی ہم سے ٹکرانے کی خواہش ہے
دیا بھی رسم شبیری میں ہم نے تو بجھا ڈالا
وہ محفل سے چلا جاۓ جسے جانے کی خواہش ہے
ہیں شطرنجی بساطیں چار سو بکھری ہوئ خاور
بنے شہ کا مصاحب یاں تو ہر خانے کی خواہش ہے
ندیم خاور