عدو کو روکیں گی یہ کاغذی فصیلیں کیا
لہو سے بھرتی رہیں گی تمام جھیلیں کیا
ہم اپنی ذات میں صحرا مزاج ہیں صاحب
ہماری پیاس بجھائیں گی یہ سبیلیں کیا
جو سسکیوں پہ چلاتے ہیں کار زارِ حیات
تو ان کے سامنے معصوم سی دلیلیں کیا
حضورِ والا گزارش ہے یہ اگر سن لو
دریدہ جسموں کو نوچیں گی آ کے چیلیں کیا
یہی تو وقت ہے عرفان بولیے کچھ تو
کسی نے گاڑھ دیں تیری زباں پہ کیلیں کیا
عرفان صادق