عید کا دن ہے تو اِس دن درد کی باتیں نہ کر
کچھ خوشی کے گیت گا کچھ دل لگی کی بات کر
زندگی پہلے ہی سے مغموم ہے رنجور ہے
اس کا سارا جسم زخموں سے، دکھوں سے چور ہے
جس کو بخشا تھا لقب یاں اشرف المخلوق کا
اب وہی مخلوق کا سب سے بڑا ناسور ہے
زر پرستی، چیرہ دستی اس کا یاں معمول ہے
ابنِ آدم کا ہے رشتہ گرچہ بھائی بھائی کا
لیکن اب یہ سب تعلق بن چکا رسوائی کا
پہلے مثبت سوچ سے تعمیر کرتا ہے جہاں
اور پھر تخریب کاری سے اجاڑے گلستاں
ساری دنیا کی بھلائی کا یہ دعوے دار ہے
لیکن اپنے بھائی پر کرتا یہ کاری وار ہے
اس کو حیوان و نباتات اور فضا سے پیار ہے
حق پسندوں سچ بیانوں سے بہت ہی عار ہے
جھونک دیتا ہے یہ ملکوں کو انا کی آگ میں
ہر مخالف کو جلاتا ہے بموں کی آگ میں
عید کا دن ہے تو اس دن درد کی باتیں نہ کر
کچھ خوشی کے گیت گا کچھ دل لگی کی بات کر
اقبال گوہر