loader image

MOJ E SUKHAN

غزل Ghazal کی تاریخ،غزل کی ہئیت اور معنویت

سنیں گے نہ حاؔلی کی کب تک صدا
یہی ایک دِن کام کر جائےگی

حالی ؔ کی غزل پیش کرنےکا مقصد یہ ہے کہ پچھلی صدیوں سے چلی آرہی روایت  سے ہٹ کر غزل گوئی کے ذریعہ اصلاحی معاشرہ کے کام کس طرح لینا ہے یہ ہم حالی سے سیکھتے ہیں۔ اگر ہم اس غزل کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے ۔ پہلے شعر میں’ میرے احساسات اور میرے جذبات کو سمجھنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ اس دنیا میں کوئی میرا محرم یا رازداں نہیں ہے۔ میری زباں حال کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ میں اس بھری دنیا میں تنہا ہوں۔ دوسرے شعر میں  ان کا خیال ہے  شاعر خود کو ایک ایسے طاکر سے تشبیہ دیتا ہے جسے چمن سے جد کر کے قفس میں بند کر دیا گیا ہے۔ وہ کوشش کرتاہے کہ کس طرح قفس میں جی بہل جائےکیوں کہ اب ایسی زندگی گزارنی ہے۔ لیکن آشیاں کی یاد اُسے بے چین رکھتی ہے۔ شاعر یاس کے عالم میں کہتا ہے کہ کوئی میرے آشیاں کو آگ لگادے۔ مجھے یقین ہوجائے گا کہ آشیاں جل چکا ہے تو پھر قفس کی زندگی چین سے گزرےگی۔

شاعر تیسرے شعر میں کہتاہے محبوب ‘ شاعر اشارے کنایہ میں کچھ کہنا چاہتا ہے تو رقیب اور بو الہوس حسد کرتے ہیں۔ شاعر ایک پُر لطف طنز کے ساتھ کہتا ہے کہ ان معمولی اشاراتِ نہاں میں کیا رکھاہے۔ بوالہوس بھی چاہیں تو اس قسم کی اشارہ بازی کرلیں ۔ مجھے اس سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ چوتھے شعر میں شاعر کہتا ہے میری داستانِ غم بڑی طویل ہے۔ جب سناؤں تفصیلات ذہن میں آتی ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ہر وقت ایک نئے عنوان کی کہانی سنارہا ہوں۔ کیا کیا جائے ۔ محبوب کے ظلم و ستم کی داستان میں اتنا تنوع ہے کہ میری داستان ہر وقت نئی کہانی معلوم ہوتی ہے۔

پانچویں شعر میں شاعر کہاتا ہے۔ خدانے مجھے ایک درمند دل عطاکیا ہے۔جس میں اپنے اور انسانیت کے دُکھ درد کو محسوس کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ یہ پُر درد دِل سیری زندگی کا بڑا سرمایہ ہے ۔ اس کی وجہ سے میرے دل و دماغ میں ہمیشہ ایک ہیجان کارفرما ہوتا ہے ۔ خدانے مجھے فرصت دی تو میں اپنے دل درد مند سے کچھ کام لوں گا۔ اور انسانیت کے دُکھ اور آلام کو منظرِعام پر لاؤں گا۔شاعر غزل Ghazal کے آخری شعر میں لکھتا ہے ۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ابھی دنیا میں ایسے پاکیزہ فطرت انسان موجود ہیں۔ پہلی نظر میں ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ کسی انسان کی سیرت اور شخصیت  میں کیا باتیں چُھپی ہوئی ہیں۔ لیکن قریب سے دیکھنے اور ملنے کا موقع ہوتو کِسی غیر معمولی اور قابلِ قدر انسان کا جوہر ہم پر کُھل جاتا ہے۔ شاعر نے اس غز ل Ghazal کے ذریعہ یہ ثابت کردیا ہے کہ  غزل Ghazal صرف فحش یا لغو باتیں کرنے کا ہنر نہیں ہے نہ ہی عورتوں کے جسم کی ہرہر حرکت پر غورو خوص کا کام ہے۔ اس مختصر تعارف کے راقم نے مقالہ کے بنیادی مقصد کا احاطہ کچھ اس طرح کیاہے۔

غزل اردو شاعری کی سب سے مقبول اور سب سے جاندار صنف ہے۔ دوسری تمام شعری اصناف مختلف ادوار میں عروج و زوال کی دھوپ چھاؤں سے دو چار ہوئیں لیکن غزل کے آنگن میں ہمیشہ دھوپ ہی دھوپ کھلی رہی۔ غزل Ghazal حقیقتاً ’’ اردو شاعری کی آبرو‘‘ ہے۔ غزل صنفِ سخن ہی نہیں معیارِ سخن بھی ہے۔‘‘
لفظ غزل کا ادبی مطلب محبوب سے گفتگو ہے۔تاریخ کی رو سے یہ عربی لفظ غزل Ghazal سے بنا ہے۔ جس کے معنیٰ ہرن کے ہیں ۔جو عام فہم زبان میں غزل ایک ایسی پابند منظوم صنف ہے۔ جس میں سات۔نویا درجن بھر یکساں وزن اور بحر کے جملوں کے جوڑے ہوں۔ اس کا آغاز جس جوڑے سے ہوتا ہے وہ مطلع کہلاتا ہے اور اختتام کےجوڑے کو مقطع کہتے ہیں۔ جس میں شاعر اپنا تخلص یا نام استعمال کرتا ہے۔غزل کے شعر میں ہر جوڑے ہر انفرادی جملے کا یکساں دراز ہونا لازمی ہوتا ہے۔پابند جملوں کے یہ جوڑے شعر کہلاتے ہیں ۔ اردو میں شعر کی جمع اشعار کہلاتی ہے۔غزل کے بنیادی نظریہ اور تعریف کے مطابق اس کا ہر شعر اپنی جگہ ایک آزاد اور مکمل منظوم معنیٰ رکھتا ہے۔کسی بھی شعرکا خیال اگلے شعر میں تسلسل ضروری نہیں ہوتا۔ایک غزل کے اشعار کے درمیان مرکزی یکسانیت کچھ الفاظ کے صوتی تاثر یا چند الفاظ کا ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں تکرار سے ہوتا ہے۔اس سے ہٹ کر بھی کسی غزل کے ایک سے زیادہ اشعار کسی ایک ہی خیال کو مرکزی ظاہر کر سکتے ہیں۔لیکن ہر شعر اپنی جگہ منظوم قواعد و ضوابط کا پابند ہونا چاہیے۔جن غزلوں میں ایک سے زائد اشعار ایک ہی مرکزی خیال کےلئے ہوتے ہیں ان کو نظم یا نظم نما غزل بھی کہا جا سکتا ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں