loader image

MOJ E SUKHAN

غزل Ghazal کی تاریخ،غزل کی ہئیت اور معنویت

’’کسی نظم کا وہ خارجی پیکر جو نظامِ قوافی، مصرعوں یا بندوں کی تعداد، مصرعوں کے طول کی یک سانیت یا عدم یک سانیت، کسی مصرعے یا شعر کی تکرار اور کسی وزنِ خاص کی شرط وغیرہ سے معین ہوتا ہے۔” ان کے خیال کو اتفاق کرتے ہوئے عارف عبد المتین نے لکھا ہے ’’(ہیئت) ابلاغ کی وہ مخصوص طرز ہے جسے ہم اپنے مذکورہ مقصد [خیال بہ شمول جذبے کی ترسیل] کے حصول کے لیے برتتے ہیں اور واضح ہے کہ اس میں اظہاری سانچے کے طور پر خاص صنفِ ادب کا انتخاب، اس کے لیے مناسب الفاظ کا چناؤ، احسن تکنیک کی تجویز اور منفرد اسلوب کی تعیین کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔” ،’’ہیئت سے مراد وہ سب ذرائع ہیں جن سے مصنف کے جذبات یا جذبیلے افکار قارئین تک پہنچائے جاتے ہیں۔‘‘

شعری ہیئت مخصوص طرزِ اظہار ہوتا ہے۔ جس کی قابلِ شناخت ظاہری شکل بھی ہوتی ہے۔ جو کسی خاص نظام کے تحت تشکیل پاتی ہے۔ کیوں کہ شعری ہیئت کی تشکیل کا نظام یا تو قوافی کی کسی ترتیب میں ہوتا ہے جیسے غزل Ghazal کے تمام ثانی مصرعوں کا ہم قافیہ ہونا یا پھر اس پر مبنی ہو گا یا ابیات مثنوی میں ہر دو مصرعوں کا ہم قافیہ ہونا۔یا مصرعوں کی تعداد مسمط کی مختلف شکلیں میں ظاہر ہونا۔جوقوافی کی نفی (نظمِ معریٰ) یا مصرعوں کے ارکان میں کمی بیشی (آزاد نظم) سے ترتیب پائے گا۔ اسے مختصراً ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہر شعری ہیئت قابلِ شناخت ظاہری شکل ضرور رکھتی ہے۔جسے دیکھتے ہی پہچان لیا جا سکتا ہےکہ یہ فلاں ہیئت ہے۔‘‘

ہیئت کی متذکرہ بالا معنوی توضیحات کے وسیع مطالعے سے دانشوروں کے باہمی اختلاف کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کیوں کہ ان کے بنیادی اسبابِ ہیئت کی حدود کی عدم تعیین ہے۔ محققین نے ہیئت کے دائرے میں تکنیک، آہنگ، لفظیات اور دیگر محسناتِ کلام کو شامل کر کے اسے ایک پیچیدہ اور خطر ناک حد تک ناقابلِ گرفت اصطلاح بنا دیا ہے۔ بلا مبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تکنیک، آہنگ اور لفظیات وغیرہ ہیئت کے ساتھ ایک لطیف ربط رکھتے ہیں ۔اسی  وجہ ہے کہ ہیئت کی کوئی جامع تعریف قائم کرنا مشکل ہے۔اس سلسلہ میں ڈاکٹر سید عبداللہ نے کہا ہے’’تجربہ جب اظہار کے قالب میں ڈھلتا ہے تو عموماً اپنی ہیئت، وزن۔ آہنگ اور صورت خود اپنے ساتھ لاتا ہے، لیکن اس صناعی میں شاعر کے شعور کو بھی دخل ہوتا ہے اور یہیں سے قصد کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔‘‘اس کے برعکس ایک دوسرا نقطۂ نظر یہ پیش کر تے ہیں  ہیئتیں معروضات میں موجود ہوتی ہیں جسےتخلیق کا ر اپنی پسند یا ضرورت کے مطابق استعمال کر تا ہے۔ جس سے آلائشوں اور غیر متعلق و غیر اہم عناصر سے پاک ہئیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس طرح کے لیٹریچر کی ہئیتی صفائی اور تازگی کے باعث دل پذیری اور رعنائی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ کیوں کہ فن کا ر پہلے سوچتا ہے پھر اظہار کے لیے خاص ہیئت تلاش کرتا ہے۔ متذکرہ ہیئت  اسی طرح تسلیم کربھی لیا جائے تو ہیئتوں کا شمار ممکن نہیں رہتا اور نہ ہی ہیئت کے تجربات کی تخصیصی صورت کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ تخلیق کار شعوری طور پر ہیئت تلاشتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق اس میں ترمیم و اضافہ کرتا ہے۔اس ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالقادر غیاث الدین فاروقی نے لکھا ہے’’غزل اپنی نمود اول سے تاحال حسن و عشق کا محور رہی ہے ، نقادوں کی بے رحمیوں اور زمانے کی چیزہ دستیوں کے باوجود غزل کی محبوبیت ومجازیت زندہ و تابندہ ہے، جذبہ عشق کی پر اسراریت کے لیے غزل کا ایمائی و اشارتی اسلوب ہی موزوں ہے، دل کے زخموں کی جراحت غزل Ghazal ہی میں چمن کھلاسکتی ہے۔
لیکن اس کے برعکس مولانا شبلی نعمانی نے ’شعر العجم‘‘ جلد پنجم کے صفحہ۶۵ میں خیال بندی کے سلسلے میں ایک معرکہ آرا بات کہی کہ اس کی وجہ سے عشقیہ شاعری کو ’نقصان‘ پہنچا۔ در اصل میں خیال بندی غزل Ghazal کے میدان کا وسیع  فن ہے۔ لیکن شبلی اس تصور کے خلاف تھے۔ شبلی اس بات کو بھی تسلیم کرتے تھے کہ اس طرز نے شاعری نے ترقی پیدا کرکی۔

’’ فغانی کے سلسلے میں رفتہ رفتہ خیال بندی، مضمون آفرینی، وقت پسندی پیدا ہوئی۔ اس کی ابتدا عرفی نے کی ۔ ظہوری، جلال اسیر، طالب آملی، کلیم وغیرہ نے اس طرز کو ترقی دی، اور یہی طرز مقبول ہو کر تمام دنیا ئے شاعری پر چھاگیا۔ ۔۔ اس انقلاب نے اگرچہ غزل Ghazal کو سخت نقصان پہنچایا۔ کیوں کہ غزل اصل میں عشقیہ جذبات کا نام ہے، اور اس طرز میں عشقیہ جذبات بالکل فنا ہوگئے، لیکن شاعری کوفی نفسہ ترقی ہوئی، عرفی نے نہایت بلند فلسفیانہ مسائل ادا کئے ۔ کلیم اور صائب نے تخیل کو بے انتہا ترقی دی۔ بعض شعرا نے اخلاق و موعظت کو نہایت خوبی سے ادا کیا۔‘

یہ در اصل میں ہندوستانی اردو غزل گو شعراء سے متعلق تعصب ہے وہ غالب کا نام نہیں لیتے، اور خیال بندی کے تحت ہندوتانیوں کا کہیں کہیں ذکر بھی کرتے ہیں تو بیدل اور ناصر کے آگے شاز ہی جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے ہندوستانی معاشرہ میں غالب کے کلام کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اردو غزل Ghazal کو تقریباً گردن زدنی قراردینے کے بعد دلّی اور لکھنئو کے دبستانوں کی چھان پھٹک کے نتیجے میں جو فضابن رہی تھی اس میں غزل پر اصرار کرنا خود کو خطرے میں ڈالنے کے متردادف تھا۔
 ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ اردو غزل کی جہاں گردن ماردینے کو جا رہا تھا وہیں دکنی شعراء نے اس میں معانی افرینی ،نئی طرز احساس اور  تہذیبی اور اخلاقی اقدار  اس میں ڈال کر ایک نئی غزل کو اعجاد کیا۔ اسی لیے سر زمیں دکن کو یہ فخر ہے کہ یہ غزل Ghazal کی پرورش میں محمد قلی قطب کے بعد اپنے اپنے طور پر اس کی حفاظت کر تے رہے۔ اسی لیے عادل شاہی حکمراں اور مغل شاہی حکمراں نے بھی اس ترقی و ترویج میں ہر ممکن معاون و مدد گار بنتے رہے۔لیکن دکنی شعراء کے کلام کی خاص  معنویت یہ رہی کہ وہ وقت اور حالات کے تقاضوں کے ساتھ رہے اور وہی  تبدیلیاں کرنا پسند کیا جو سماج کی ضرورت تھی۔ویسے بھی کسی بھی فن پارے کے مطالعہ کے وقت یہ خیال آتا ہے کہ فن کی تخلیق میں خیال زیادہ اہمیت کا حامل ہے یا ہیئت۔ فن کار ہیئت کے ذریعے تجربے میں تنظیم، حسن اور ترتیب پیدا کر کے اپنے جذبات و تاثرات کو مؤثر انداز میں پیش کرتا ہے۔ یوں خیال اور اس کی پیش کش دونوں اپنی اپنی جگہ اہمیت اور قدر و قیمت کے حامل ٹھہرتے ہیں۔ اور ان دونوں کے امتزاج سے ہی ایک ایسا فن پارہ معرضِ وجود میں آتا ہے۔ جو اپنی صفائی اور جاذبیت کے باعث قلب و نگاہ کو اپنا اسیر کر لیتا ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں